ایکنا نیوز کے مطابق صوبے میں فری مشاورتی کلینک اور مراکز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جائے گا اور «نورڈراین ـ وسٹفالن» Nordrhein-Westfalen) کے حکام کے مطابق سلفی شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے دیگر اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
جرمنی میں ایرانی ثقافتی مرکز کے مطابق والدین سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ انکی اولاد سلفی طرز فکر سے متاثر شدہ ہیں تو ان کلینک میں رجوع کرسکتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے جوانوں کے لیے ۱.۶ فنڈ مختص کیا جاچکا ہے تاکہ جوانوں کو ان افکار سے بچانے کے لیے انکی تربیت اور تفریح پر خرچ کیا جاسکے۔ جرمن شہروں بن، ڈوسلڈورف، ڈینسلاکن اور ووپرتال میں بھی مشاورتی مراکز قایم کیے گیے ہیں۔
«نورڈراین ـ وسٹفالن» کے حکام کے مطابق جوانوں کو ان افکار سے بچانے کے لیے مختلف اداروں کی ہم آہنگی سے پروگرام ترتیب دیے جارہے ہیں اور سال ۲۰۱۶ سے اس پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
«نورڈراین ـ وسٹفالن» کے وزیر داخلہ هربرٹ رول کا کہنا ہے: اگرچہ ہمارے صوبے میں شدت پسندی میں زیادہ اضافہ نہیں دیکھا گیا ہے تاہم سلفی طرز فکر معاشرے میں اہم خطرہ شمار کیا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے ملکی بقاء کے لیے اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے اور بالخصوص داعش کے ساتھی جو جنگ سے واپس آرہے ہیں وہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
رول کا کہنا تھا : مشاورتی مراکز کے لیے ساڑھے پانچ ملین یورو مختص کیا گیا ہے تاکہ سلفی شدت پسندی کی ترویج سے مقابلہ کا جاسکے جو انٹرنیٹ پر شدت پسندی پھیلانے میں سرگرم ہے اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تدارک کے لیے اقدام کریں۔/